کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

(1) کیا قربانی کے جانور میں عقیقہ کا حصہ شامل کیا جاسکتا ہے ؟زید کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں کرسکتے کیونکہ صحاح ستہ کی روایات میں واضح طور پر یہ بیان کیا گیا ہے کہ عقیقے کے لیے پورے پورے بکرے یا بکریوں کی قربانی ہی ہوسکتی ہے ۔کسی ضعیف حدیث سے بھی بڑا جانور عقیقے کے طور پر کرنا یا قربانی کے ساتھ کرنا ثابت نہیں ۔

(2)عقیقہ صرف چھوٹے جانور میں ہوسکتا ہے کیونکہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑے جانور موجود ہونے کے باوجود کبھی ان کو عقیقہ میں ذبح نہ کیا اور حکم بھی چھوٹے جانور کا دیا اور نہ کبھی صحابہ نے ایساکیا ۔

(3)عقیقے کو قربانی پر قیاس کرنا بالکل غلط اور بدعت ہے کیونکہ قیاس اس مسئلہ میں درست ہوتا ہے جس کی دلیل موجود نہ ہو لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے واضح  فرامین عقیقے کے بارے میں موجود ہیں تو پھر اپنی طرف سےقیاس کرتے ہوئے عقیقے کو قربانی کی طرح ثابت نہیں کرسکتے ۔

(4)اگر یہ  بات مان بھی لی جائے کہ بڑا جانور عقیقے  میں قربان کیا جاسکتا ہے پھر بھی حدیث میں یہ الفا ظ ہیں کہ لڑکے کے لیے دو دم ،لڑکی کے لیے ایک دم ۔یعنی پورے جانور ۔لہٰذا اگر یہ مان بھی لیں کہ بڑا جانور کرسکتے ہیں تب بھی پورے پورے جانور ہی ہوسکتے ہیں ایک جانور میں قربانی اور عقیقے کو ملا لینا یہ تو کسی طرح بھی ثابت نہیں اور دین میں بدعت سیئہ ہے لہٰذا ناجائز ہے ۔

برائے کرم قرآن وحدیث سے جواب عطا فرمادیں کیونکہ زید فقہا کے فرامین کو ماننے کو تیار نہیں ۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک  الوہاب اللھم ہدایۃ الحق والصواب

(1،2) جس طرح بکرے بکری وغیرہ سے عقیقہ ہوسکتا ہے اسی طرح گائے، بیل اور اونٹ وغیرہ کے ذریعے بھی عقیقہ ہوسکتا ہے،اور  بڑے جانور مثلا گائے اور اونٹ وغیرہ میں جس طرح قربانی کے سات حصے ہوتے ہیں اسی طرح عقیقے کے بھی سات حصے ہوسکتے ہیں نیز قربانی کے بڑے جانو رکے مختلف حصوں میں  مختلف عبادات مثلا عقیقہ ،کفارہ کے دم وغیرہ کی بھی نیت کی جاسکتی ہے ۔ ذیل میں ان تینوں مسائل پر دلائل بیان کئے جائیں گے ۔

زید معترض کا تعلق اسی گروہ جاہلاں سے معلوم ہوتا ہے جوحدیث دانی کے دعوی  کی آڑ میں علماوفقہاء اسلام پر طعن کا دروازہ کھولتے ہیں ۔

زید نے صحاح ستہ کے حوالے سے یہ کہا ’’ صحاح ستہ کی روایات میں واضح طور پر یہ بیان کیا گیا ہے کہ عقیقے کے لیے پورے پورے بکرے یا بکریوں کی قربانی ہی ہوسکتی ہے ۔‘‘

ہمارا زیدسے یہ مطالبہ ہے کہ صحاح ستہ کی کوئی ایک ایسی روایت ہمیں دکھائے جس میں اس کی طرح حصر کیا گیا ہے کہ عقیقہ میں بکرے اور بکری ہی ہوسکتی ہے ۔یہ لفظ’’ہی ‘‘کا اضافہ زید کی طرف سے ہے جسے زید نے احادیث کی طرف منسوب کیا ہے ،اگر زید یہ حصر نہ دکھاسکے اور یقینا نہ دکھا سکے گا تو زید کتنے بڑے گناہ کا مرتکب ہوا کہ جو چیز حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے نہ ارشاد فرمائی تھی اس کو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی طرف منسوب کردیا ۔اور اس عمل کے بارے وارد وعید تو  زید کو یقینا  اچھی طرح یاد ہوگی کیونکہ وہ تو صحیح بخاری میں بھی ہے۔

اس کے بعد زید نے مزید اپنی جہالت کا اظہار کیا اور کہا:’’ کسی ضعیف حدیث سے بھی بڑا جانور عقیقے کے طور پر کرنا ثابت نہیں ۔‘‘مزید کہا:’’ عقیقہ صرف چھوٹے جانور میں ہوسکتا ہے کیونکہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑے جانور موجود ہونے کے باوجود کبھی ان کو عقیقہ میں ذبح نہ کیا اور حکم بھی چھوٹے جانور کا دیا اور نہ کبھی صحابہ نے ایساکیا ۔‘‘

ان دوپیراگراف میں زید کی طرف سے دوباتیں کی گئی ہیں ،ایک تو وہی حصر کہ عقیقہ صرف چھوٹے جانورمیں ہوسکتا ہے جس پر ہم اوپر گفتگو کر آئے ہیں  کہ حدیث مبارک سے یہ الفاظ دکھانا زید کے ذمے ہے۔اور دوسری بات یہ ہے کہ بڑے جانور سے عقیقہ پر نہ تو کوئی ضعیف حدیث ہے اور نہ کسی صحابی کا عمل ۔

ہم زید کی اس جہالت کو دورکرکے اُس کے علم میں اضافہ کردیتے ہیں کہ بڑے جانور سے عقیقہ ہونے پر حدیث بھی پیش کردیتے ہیں اور صحابی کا عمل بھی پیش کردیتے ہیں :

بڑے جانور سے عقیقہ درست ہونے پر حدیث :

سند حسن کے ساتھ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس کے ہاں بچہ پیدا ہو وہ اونٹ یا گائے یا بکری سے عقیقہ کرے ۔

اس حدیث کو بڑے بڑے ائمہ(مثلاابوبکر احمد بن عبد الرحمن شیرازی ،ابو نعیم احمد بن عبد اللہ بن احمد اصفہانی اور ابو نصراحمد بن علی جصاص )کے استاذابو محمد عبد اللہ بن محمد بن جعفر بن حیان اصفہانی المعروف ابو الشیخ اصفہانی متوفی 369ھ نے اپنی کتاب ’’کتاب الضحایا والعقیقہ ‘‘میں سند حسن کے ساتھ روایت  کیا ہے۔اور اس بات کو امام نور الدین ابو الحسن علی بن ابوبکر ہیثمی اور امام شہاب الدین احمد بن علی ،ابن حجر عسقلانی کے استاذزین الدین ابو الفضل  عبد الرحیم بن حسین عراقی متوفی 806ھ نے اپنی کتاب’’ طرح التثریب فی شرح التقریب‘‘ میں ذکر کیا ہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں: ’’روى ۔۔۔أبو الشيخ بن حيان في الأضاحي بسند حسن عن أنس قال قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم – «من ولد له غلام فليعق عنه من الإبل والبقر والغنم»‘‘ترجمہ:ابو الشیخ   بن حیان نے اضاحی میں سند حسن کے ساتھ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جس کے ہاں بچہ پیدا ہو تو وہ اس کا عقیقہ اونٹ یا گائے یا بکری سے کرے ۔

              (طرح التثریب فی شرح التقریب ،جلد5،صفحہ209،دار إحياء التراث العربي)

بڑے جانور سے عقیقہ کرنے پر صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عمل :

ابو بكر عبد الله بن محمدالمعروف  ابن ابی شيبہ متوفى235ھ اپنی کتاب مصنف ابن ابی شیبہ میں ،ابو بكر عبد الله بن محمد بغدادی قرشی المعروف ابن ابی الدنيا متوفى281ھ اپنی کتاب النفقۃ علی العیال میں اورابو القاسم سليمان بن احمدشامی،طبرانی متوفى360ھ اپنی کتاب المعجم الکبیر میں روایت کرتے ہیں : (والنظم ھذا للطبرانی )’’حدثنا أبو مسلم، ثنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا هشام، ثنا قتادة، «أن أنس بن مالك كان يعق عن بنيه الجزور‘‘ترجمہ:حضرت انس بن مالک اپنے بچوں کی طرف سے اونٹ کے ساتھ عقیقہ کیا کرتے تھے ۔          (المعجم الکبیر ،جلد1،صفحہ244،مکتبہ ابن تیمیہ ،قاہرہ)

امام نور الدين ابو الحسن علی بن ابو بكرہيثمی متوفى807ھ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس عمل مبارک کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :’’رواه الطبراني في الكبير، ورجاله رجال الصحيح.‘‘یعنی اسے امام طبرانی نے معجم کبیر میں روایت کیا ہے اور اس کے رجال صحیح کے رجال ہیں ۔           (مجمع الزوائد ،جلد4،صفحہ59،مکتبۃ القدسی ،قاہرہ )

یہی وجہ ہے کہ احناف،شوافع اورحنابلہ کے نزدیک بالاتفاق اور مالکیہ کے ارجح قول کے مطابق بڑے جانور سے عقیقہ کرنا درست ہے۔ موسوعہ فقہیہ کویتیہ میں ہے:’’يجزئ في العقيقة الجنس الذي يجزئ في الأضحية، وهو الأنعام من إبل وبقر وغنم، ولا يجزئ غيرها، وهذا متفق عليه بين الحنفية، والشافعية والحنابلة، وهو أرجح القولين عند المالكية ‘‘ترجمہ:جس جنس کے جانور قربانی میں کافی  ہیں وہ عقیقے میں بھی کفایت کرجائیں گے ۔اور وہ چوپائے ہیں یعنی اونٹ،گائےاور بکری،اس کے علاوہ کوئی جانور کافی نہیں ہے یہ احناف ،شافعیہ اور حنابلہ کا متفق علیہ مذہب ہے اور مالکیہ کے نزدیک دوقولوں میں سے ارجح یہی ہے ۔    (موسوعہ فقہیہ کویتیہ ،جلد30،صفحہ279،دارالصفوہ ،مصر)

(3)زید کی تیسری دلیل کا حاصل یہ ہے کہ جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے عقیقے کے بارے میں صرف بکرے بکری کا ذکر کیا ہے اونٹ اور گائے کا ذکر نہیں کیا تو عقیقے کو قربانی پر قیاس کرکے بڑے جانور سے عقیقہ ثابت کرنا بالکل غلط اور بدعت ہے ۔

اگرچہ زید کی یہ بات بھی جہالت سے بھرپور ہے اور اس پر ہم بہت کچھ لکھ سکتے ہیں لیکن فتوی اتنی تفصیل کا محل نہیں ہوتا،اس لیے ہم اختصار کے ساتھ زید کی اس بات کی خرابی بیان کردیتے ہیں :مثلا حضورنبی مکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے صرف چھ چیزوں(سونا ،چاندی ،گندم ،جو،نمک اور کھجور) کا نام لے کر کمی زیادتی اور ادھار کو سود فرمایا ، حالانکہ اس دور میں بھی ہزاروں ایسی چیزیں موجود تھیں جن میں سود ہوسکتا ہے  تو کیا زید کے اصول کے مطابق  حدیث میں مذکور چھ چیزوں کے علاوہ میں کبھی بھی سود نہیں ہوگا ؟؟کیونکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے موجود ہوتے ہوئے بھی ان کا نام لے کر ان میں سود کا حکم  بیان نہیں کیا ۔

اسی طرح حضور نبی مکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بلی کے جھوٹے کے بارے میں رخصت عطا فرمائی کہ یہ گھر میں آنے جانے والا جانور ہے،حالانکہ اس وقت بھی کئی اور جانور تھے جو گھروں میں آتے جاتے تھے لیکن ان کا نام لے کر کوئی حکم بیان نہیں کیا تو اب زید بتائے کہ اگر بلی کے علاوہ اسی طرح کا کوئی اور جانور پانی میں منہ ڈال دے تو پانی کا کیا حکم ہے ؟اور زید اپنی دلیل بھی بتائے کہ اس نے یہ حکم کس دلیل سے اخذ کیا ہے ؟

اس طرح کے سینکڑوں احکام موجود ہیں ۔لیکن اب جبکہ ہم نے بڑے جانور سے عقیقہ ہونے پر حدیث اور اثر دونوں بیان کردئیے ہیں تو زید کا یہ اعتراض بھی بالکل ختم ہوگیا کہ یہاں محض قیاس ہے ۔

(4)زید کی چوتھی دلیل کی بنیاداس پر ہے کہ عقیقہ کےلیے حدیث میں ’’اہراق دم ‘‘کے الفاظ ہیں لہٰذاجس کی طرف سے بھی عقیقہ کیا جائے اس کی طرف سے الگ اہراق دم ہونا ضروری ہے ، اگر گائے میں سات حصے رکھیں گے تو سب کے لیے الگ الگ اہراق دم نہیں پایاجائے گا ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ زید نے جس طرح پہلے عقیقہ کے بکری ،بکرے کے ساتھ خاص ہونے کا دعوی بلادلیل کیا تھا  اسی طرح ہر ایک کے لیے الگ سے ’’اہراق دم ‘‘ہونے کا دعوی بھی بلا دلیل ہے ،اس پر دلیل بیان کرنا زید کے ذمہ ہے۔زید اس پر دلیل دے ۔

اگر یہ کہا جائے کہ حدیث کے ظاہر الفاظ اس پر دلالت کررہے ہیں تو یہ درست نہیں ہے کیونکہ جس طرح عقیقہ کے لیے ’’اہراق دم ‘‘ کے الفاظ حدیث میں مروی ہیں اسی طرح قربانی کے لیے بھی ’’اہراق دم ‘‘کے الفاظ حدیث میں مروی ہیں،(جیساکہ عنقریب اس کا ذکر آتا ہے) اور قربانی کے بارے یہ الفاظ مروی ہونے کے باوجود گائے اور اونٹ میں سات قربانیاں ہونا بھی احادیث سے ثابت ہے  لہٰذا معلوم ہوا کہ صرف ان الفاظ سے ہر ایک کےلیے علیحدہ اہراق دم ہونا ثابت نہیں ہوتاورنہ تو گائے اور اونٹ میں قربانی بھی ایک ہی ہوتی ۔بالجملہ ساتوں شرکا کی طرف سے اہراق دم تو پایا گیا ہے اس لیے قربانی کی طرح عقیقہ بھی ہوجائے گا ۔اب رہی یہ بات کہ ہر ایک کے لیے علیحدہ اہراق دم کی قیدہوتو یہ زید کا قول ہے جس پر زید ہی دلیل بیان کرے کہ اس نے یہ قید کہاں سے لگائی ؟؟؟

اب صرف اتنی بات رہ گئی کہ گائے اور اونٹ میں قربانیاں تو سات ہوسکتی ہیں لیکن قربانی کے ساتھ عقیقہ کی نیت کرنا کیسے درست ہے؟ تو یہاں یہ بات یادرکھیں کہ جس طرح ایک گائے میں سات افراد قربانی کی نیت سے شریک ہوں تو ان سب کی طرف سے وہ ایک جانور اور ایک ہی اہراق دم کافی ہوجاتا ہے اور اس میں یہ کوئی تخصیص نہیں کی جاتی کہ سب پر قربانی واجب ہے یا کچھ اپنا واجب ادا کررہے ہیں اور کچھ نفل ،بلکہ بلاتفریق صرف ایک چیز مطلوب ہوتی ہے کہ سب کی نیت قربانی (یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت وقربت کے لیے جانور قربان کرنے)کی ہو۔اور اسی ایک مطلوبہ امر پر جب غور کیا گیا تو معلوم ہوا کہ عقیقہ کرنے والے کی بھی یہی نیت ہے کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کی قربت کے لیے ہی جانور قربان کرنا چاہتا ہے جب دونوں کی نیت ایک جیسی ہے تو جس جانور میں شرکت کی گنجائش ہے وہاں یہ دونوں شریک ہوسکتے ہیں جیساکہ واجب اور نفل قربانی والے شریک ہوسکتے ہیں حالانکہ ایک پر واجب ہے اور دوسرا محض نفلی قربانی کررہا ہوتا ہے ۔

زید نے بڑی بے باکی کے ساتھ اپنی تیسری دلیل میں عقیقہ کو قربانی پر قیاس کرنے کو بدعت قراردیا اور پھر چوتھی دلیل میں عقیقے اور قربانی کے ایک جانور میں ملانے کو بدعت سیئہ قرار دیا ہے ،ہم یہاں اس قیاس پر مزید کلام کرتے ہیں تاکہ زید کو معلوم ہو کہ اس کو ’’بدعت ‘‘ قرار دینے سے کتنے بڑے بڑے ائمہ کرام ومحدثین اورکس قدرامت مسلمہ کو مجرم وگناہ گار قرار دینا لازم آئے گا۔اور پھر زید کو یہ بھی محض بدگمانی ہی ہے کہ  عقیقہ کو قربانی پر قیاس کرنا  محض اپنی طرف سے ہے ،اس لیے کہ حدیث میں مذکور الفاظ سے بھی عقیقہ اور قربانی کا ایک جیساہونا سمجھ آتا ہےمثلا

(الف)قرآن و احادیث میں قربانی کے لیے لفظ نسک استعمال ہوا ہے ،اسی طرح احادیث میں عقیقہ کے لیےبھی  لفظ ’’نسک‘‘ استعمال ہوا ہے۔قرآن مجید میں قربانی کےبارے میں ہے (قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ(۱۶۲)ترجمہ:تم فرماؤ بے شک میری نماز اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ کے لیے ہے جو رب سارے جہان کا۔             (پارہ 8،سورۃ الانعام ،آیت162)

صحیح بخاری ،صحیح مسلم ،سنن ابوداؤد وغیرہ میں  ہےحضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ  علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا  :’’من صلى صلاتنا، ونسك نسكنا، فقد أصاب النسك ‘‘ترجمہ:جس نے ہمارے جیسی  نماز پڑھی ،اور ہمارے جیسی قربانی کی تو اس نے قربانی کو پالیا ۔(صحیح بخاری ،جلد2،صفحہ17،دار طوق النجاۃ )

عقیقہ کے متعلق موطا امام مالک ،مصنف عبد الرزاق،مصنف ابن ابی شیبہ اور مسند امام احمد وغیرہ میں حدیث حسن مروی ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’من ولد له، فأحب أن ينسك عن ولده فليفعل ‘‘ترجمہ:جس کے ہاں بچہ پیدا ہو پس وہ بچے کی طرف سے عقیقہ کرنا چاہے تو کرلے ۔           (مسند امام احمد ،جز38،صفحہ211،مؤسسۃ الرسالہ )

(ب)قربانی کرنے اور عقیقہ کرنے دونوں کے لیے لفظ اہراق استعمال ہوا ہے۔قربانی کے بارے میں سنن ترمذی ،سنن ابن ماجہ اورمستدرک للحاکم وغیرہ میں ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ما عمل آدمي من عمل يوم النحر أحب إلى الله من إهراق الدم‘‘ترجمہ:یوم نحر کوآدمی کے اعمال میں سے اللہ تعالیٰ کے ہاں اہراق دم سے زیادہ پسندیدہ کوئی عمل نہیں ہے ۔

(سنن ترمذی ،جلد4،صفحہ83، مصطفى البابی حلبی، مصر)

عقیقہ کے بارے میں صحیح بخاری ،سنن ترمذی اورسنن ابو داؤد وغیرہ میں ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’مع الغلام عقيقة، فأهريقوا عنه دما، وأميطوا عنه الأذى ‘‘ترجمہ:لڑکے کے ساتھ عقیقہ ہے تو اس کی طرف سے خون بہاؤاور اس سے اذیت کو دور کرو۔ (صحیح بخاری ،جلد7،صفحہ84،دارطوق النجاۃ )

مذکورہ روایات سے واضح ہے کہ دونوں کے بارے ایک جیسے الفاظ مروی ہیں،اسی وجہ سے امت کے بڑے بڑے ائمہ کرام نے عقیقہ کو قربانی پر قیاس کیا ہےمثلا

امام دار الہجرہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  عقیقہ کے بارے میں فرماتے ہیں :’’إنما هي بمنزلة النسك، والضحايا‘‘ترجمہ:بے شک یہ  قربانی کے قائم مقام ہے ۔            (موطا امام مالک ،جلد3،صفحہ 717، مؤسسة زايد بن سلطان،أبو ظبي،الإمارات)

المغنی لابن قدامہ حنبلی میں ہے :’’قال أحمد:۔۔۔ والعقيقة تجري مجرى الأضحية‘‘ترجمہ:امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا :اور عقیقہ قربانی کے قائم مقام ہے ۔        (المغنی ،جلد9،صفحہ460،مکتبۃ القاھرہ)

اسی میں ہےکہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:’’ والأشبه قياسها على الأضحية؛ لأنها نسيكة مشروعة غير واجبة، فأشبهت الأضحية، ولأنها أشبهتها في صفاتها وسنها وقدرها وشروطها ‘‘ترجمہ: عقیقہ کو قربانی پر قیاس کرنا زیادہ مناسب  ہے کیونکہ یہ نسیکہ مشروعہ غیر واجبہ ہے تو یہ قربانی کے مشابہ ہوگیا اور اس وجہ سے بھی کہ یہ صفات،عمر ،مقداراور شرائط میں قربانی کے مشابہ ہے ۔

 (المغنی ،جلد9،صفحہ463،مکتبۃ القاھرہ)

علامہ ماوردی شافعی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :’’والفصل الثاني:في صفة العقيقة وهي من النعم كالضحايا‘‘ ترجمہ: دوسری فصل عقیقہ کی صفت کے بیان میں ہے اور وہ قربانی کی طرح چوپایوں میں سے ہونا ہے ۔

اس کے بعد کم عمر جانور سے عقیقہ کرنےکا حکم بیان کرتے ہوئے فرمایا :’’لا تقوم به سنة العقيقة اعتبارا بالأضحية وتكون ذبيحة  لحم ليست بعقيقة، لأنهما مسنونتان، وقد قيد الشرع سن إحداهما فتقرر به السن فيهما‘‘ترجمہ:قربانی پر قیاس کرتے ہوئے اس سے عقیقہ کی سنت قائم نہیں ہوگی ،اور یہ جانور گوشت کے لیے ذبح شدہ ہوگا ‘عقیقہ نہیں ہے ،کیونکہ یہ دونوں (عقیقہ اور قربانی )سنت ہیں اور شریعت نے ان میں سے ایک میں عمر کی قید لگائی ہے تو اس  قید کی وجہ سے یہ حکم دونوں میں ہے ۔  (الحاوی الکبیر ،جلد15،صفحہ128،دارالکتب العلمیہ ،بیروت)

العقود الدریہ میں ہے ’’ حكمها كأحكام الأضحية ‘‘ترجمہ:عقیقہ کا حکم قربانی کے احکام کی طرح ہے ۔   (العقود الدریہ ،جلد2،صفحہ213،دارالمعرفۃ)

پھر جب قربانی اور عقیقہ دونوں سے مقصود اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل کرنا ہے تو علماء نے فرمایا کہ قربات کی جہات اگرچہ صورۃً مختلف ہوں مثلا ایک شخص قربانی کرنا چاہتا ہے ،دوسرا عقیقہ کرنا چاہتا ہے ،تیسرا احرام میں ہوئے کسی جرم کا دم دینا چاہتا ہے لیکن معنیً یہ تمام ایک ہی ہے کہ سب کا مقصود اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا ہے اس لیے ایک جانور میں یہ سب قربات ادا ہوسکتی ہیں ۔بدائع الصنائع میں ہے: ’’(لنا) أن القربة في إراقة الدم وأنها لا تتجزأ؛ لأنها ذبح واحد فإن لم يقع قربة من البعض لا يقع قربة من الباقين ضرورة عدم التجزؤ ولو أرادوا القربة؛ الأضحية أو غيرها من القرب أجزأهم سواء كانت القربة واجبة أو تطوعا أو وجبت على البعض دون البعض، وسواء اتفقت جهات القربة أو اختلفت بأن أراد بعضهم الأضحية وبعضهم جزاء الصيد وبعضهم هدي الإحصار وبعضهم كفارة شيء أصابه في إحرامه وبعضهم هدي التطوع وبعضهم دم المتعة والقران وهذا قول أصحابنا الثلاثة‘‘ترجمہ: ہماری دلیل یہ ہے کہ خون بہانے میں قربت ہے اور خون بہانا جزئیت کو قبول نہیں کرتا کیونکہ یہ ایک ہی ذبح ہے پس اگر بعض کی طرف سے قربت واقع نہیں ہوگا تو جزئیت کو قبول نہ کرنے کی وجہ سے باقیوں کی طرف سے بھی قربت نہیں ہوگا اور اگر سب نے قربت کا ارادہ کیا‘ چاہے وہ قربانی ہو یاکوئی اور قربت تو یہ ان کو کفایت کرجائے گا چاہے وہ قربت واجب ہو یا نفل ،یا بعض پر واجب ہو اوربعض پر واجب نہ ہو ،چاہے قربت کی جہات  ایک جیسی ہوں یا مختلف ہوں جیسے ایک نے قربانی کا ارادہ کیا ،ایک نے شکار کی جزا کا ،ایک نے احصار کی ہدی کا ، ایک نے احرام میں ہونے والے جرم کے کفارے کا ،ایک نے نفلی ہدی کا ،بعض نے  تمتع اور قران کے دم کا ارادہ کیا ۔اور یہ ہمارے تینوں ائمہ کا قول ہے ۔      (بدائع الصنائع ،جلد5،صفحہ71،دارالکتب العلمیہ ،بیروت)

اسی میں ہے:’’(ولنا) أن الجهات – وإن اختلفت صورة – فهي في المعنى واحد؛ لأن المقصود من الكل التقرب إلى الله – عز شأنه – وكذلك إن أراد بعضهم العقيقة عن ولد ولد له من قبل؛ لأن ذلك جهة التقرب إلى الله تعالى – عز شأنه – بالشكر على ما أنعم عليه من الولد‘‘ ترجمہ:ہماری دلیل یہ ہے کہ جہات اگرچہ صورۃً مختلف ہیں لیکن معنیً ایک ہی ہے کیونکہ تمام سے مقصود اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا ہے اور اسی طرح اگر ان میں سے کسی نے پہلے سے پیداشدہ اپنے بچے کے عقیقے کی نیت کی (تو یہ بھی درست ہے )کیونکہ یہ بچے کی نعمت پر شکر ادا کرنے کے ساتھ  اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی ایک جہت ہے ۔    (بدائع الصنائع ،جلد5،صفحہ72،دارالکتب العلمیہ ،بیروت)

کیا کوئی شخص امت کے ان عظیم  ائمہ کرام اور ان کےماننے والے  کروڑوں احناف ،مالکیہ ،شوافع اور حنابلہ علماء وعوام کو بدعت کا مرتکب ٹھہراسکتا ہے ؟بلکہ ایسی بات کہ جس کی وجہ سے امت کے اس قدر کثیر لوگوں کے بارے میں یہ بات لازم آئے وہ خود ہی مردود ہوتی ہے ۔کہ احادیث طیبات میں سواد اعظم کی پیروی کا حکم ہے اور جو اس سواد اعظم سے جدا ہو اس کے لیے جہنم کی وعیدات ہیں کیونکہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ میری امت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہوسکتی۔اور اس سواد اعظم سے مراد اہل سنت ہی ہیں ۔

 ابن ماجہ کی حدیث میں فرمایا:’’إن أمتی لا تجتمع علی ضلالۃ، فإذا رأیتم اختلافا فعلیکم بالسواد الأعظم‘‘ترجمہ: میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہوگی ۔جب تم اختلاف  دیکھو تو تم پر بڑے گروہ کی اتباع لازم ہے۔ ( ابن ماجہ،کتاب الفتن ،باب السواد الأعظم،جلد2،صفحہ1303،دار إحیاء الکتب ،الحلبی)

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:’’قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم إن الشیطان ذئب الإنسان کذئب الغنم یأخذ الشاذۃ والقاصیۃ والناحیۃ وإیاکم والشعاب وعلیکم بالجماعۃ والعامۃ ‘‘ترجمہ:رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ شیطان آدمی کا بھیڑیا ہے جیسے بکریوں کا بھیڑیا کہ وہ الگ اور دور و کنارے والی بکری کو پکڑتا ہے۔ تم گھاٹیوں سے بچو، مسلمانوں کی جماعت اوراکثریت کو لازم پکڑو۔

(مشکوٰۃ المصابیح،باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ،جلد1،صفحہ40،المکتب الإسلامی،بیروت)

    مسند احمد اور ابو داؤمیں بسند صحیح حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہےوہ  فرماتے ہیں:’’ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم من فارق الجماعۃ قید شبر فقد خلع ربقۃ الإسلام من عنقہ‘‘ترجمہ: رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاجو جماعت سے ایک  بالشت بھرجداہوا اس نے اسلام کی رسی اپنی گردن سے اتار دی۔        (سنن ابوداؤد،کتاب الایمان،باب الخوارج ،جلد2،صفحہ655،دار الفکر ،بیروت)

سواد اعظم پر کلام کرتے ہوئے امام جلال الدین سیوطی فرماتے ہیں:’’فعلیکم بالسواد الأعظم أی جملۃ الناس ومعظمہم الذین یجتمعون علی طاعۃ السلطان وسلوک النہج المستقیم کذا فی المجمع فہذا الحدیث معیار عظیم لأہل السنۃ والجماعۃ شکر اللہ سعیہم فانہم ہم السواد الأعظم وذلک لا یحتاج الی برہان فإنک لو نظرت الی أہل الأہواء بأجمعہم مع انہم اثنان وسبعون فرقۃ لا یبلغ عددہم عشر أہل السنۃ ‘‘ترجمہ:تم پر سواد اعظم کی اتباع لازم ہے یعنی لوگوں میں سے اس بڑے  گروہ کی جوسلطان کی اطاعت اور صراطِ مستقیم پر گامزن رہے اسی طرح مجمع میں ہے۔ یہ حدیث(سوادِاعظم کی اتباع کرو) اہل سنت کا معیار عظیم ہے۔ اللہ عزوجل اہل سنت کی کوشش کو قبول فرمائے۔بے شک یہی سوادِ اعظم ہے،اوریہ بات کسی دلیل کی محتا ج نہیں۔اگر تو تمام اہل ہوا (خواہشات کی پیروی کرنے والے گمراہ فرقوں) کی طرف دیکھے تو وہ بہتر فرقے ہونے کے باوجود اہل سنت کی تعداد کے دسویں حصے تک بھی نہیں پہنچ سکتے۔          (شرح سنن ابن ماجہ،جلد1،صفحہ283،قدیمی کتب خانہ ،کراچی)

ملاعلی قاری علیہ رحمۃ اللہ الباری سواد اعظم کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’لا ریب انھم اھل السنۃ والجماعۃ‘‘ یعنی بلا شک وشبہ وہ گروہ اہل سنت وجماعت ہے۔     (مرقاۃ المفاتیح، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ،جلد 01،صفحہ259، دار الفکر، بیروت)

فیض القدیر میں ہے:’’(علیکم بالجماعۃ) أی أرکان الدین والسواد الأعظم من أہل السنۃ أی الزموا ہدیہم فیجب اتباع ما ہم علیہ من العقائد والقواعد وأحکام الدین‘‘ترجمہ:تم پر جماعت کی پیروی لازم ہے یعنی دین کے ارکان اور اہل سنت میں سے سواد اعظم کی پیروی ۔یعنی ان کی ہدایت کو لازم پکڑلو لہٰذا اہل سنت جن عقائد وقواعد اور احکام دین پر ہیں ان کی اتباع واجب ہے ۔

(فیض القدیر شرح الجامع الصغیر،جلد3،صفحہ78،المکتبۃ التجاریۃ الکبری ،مصر)

التیسیر بشرح جامع الصغیر میں ہے:’’(علیکم بالجماعۃ )أی السواد الأعظم من أہل السنۃ أی الزموا ہدیہم (وإیاکم والفرقۃ )أی احذروا مفارقتہم ما أمکن‘‘ترجمہ: تم پر جماعت کی پیروی لازم ہے یعنی اہل سنت کے سواد اعظم کی ۔یعنی ان کی ہدایت کولازم کرلو ۔فرقہ بازی سے بچویعنی حتی الامکان ان سے الگ ہونے سے بچو۔ (التیسیر بشرح جامع الصغیر،جلد 1،صفحہ787،مکتبۃ الإمام الشافعی ،الریاض)

نیز اگر عقیقہ کو قربانی پر قیاس کرنا غلط ہے تو زید بتائے کہ عقیقہ کے جانو رمیں جن صفات کی قیودات لگائی جاتی ہیں وہ کہاں سے ثابت ہیں؟؟؟

تنبیہ :بعض لوگ بڑے جانور سے عقیقہ کی ممانعت پر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ایک روایت بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد الرحمن بن ابوبکر کےہاں بچے کی پیدائش ہوئی تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے پوچھا گیا کہ کیا اس   کا عقیقہ اونٹ سے کرلیں تو آپ نے فرمایا :معاذ اللہ (اللہ کی پناہ )لیکن اسی سے کریں جو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا :دوہم مثل بکریاں ۔روایت کے الفاظ درج ذیل ہیں :’’ ثنا عبد الجبار بن ورد، قال: سمعت ابن أبي مليكة يقول: نفس لعبد الرحمن بن أبي بكر غلام فقيل لعائشة رضي الله عنها: يا أم المؤمنين عقي عليه , أو قال: عنه جزورا , فقالت: معاذ الله ولكن ما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” شاتان مكافأتان ‘‘

(سنن کبری للبیہقی ،جلد9،صفحہ507،دارالکتب العلمیہ ،بیروت)

اس روایت کو ذکر کرکے بعض لوگ کہتے ہیں کہ دیکھیں حضرت عائشہ نے اونٹ کے عقیقہ  پر معاذ اللہ کے الفاظ کہے ہیں جس کا یہ مطلب ہے کہ یہ جائز نہیں ہے ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جو معاذ اللہ کہا ہے وہ محض مستحب وافضل کی نفی کرنے کے لیے کہا ہے، اونٹ کے عقیقہ کے ناجائز وناکافی ہونے کی وجہ سے نہیں کہا جیساکہ ابو عبد الله حسين بن حسن جرجانی شافعی متوفى403 ھ نے اس حدیث کا یہی معنی ومحمل بیان کیا ہے چنانچہ آپ اونٹ سے عقیقہ کے مسئلہ کو ذکر کرتے ہوئے حدیث عائشہ جس میں معاذ اللہ کے الفاظ ہیں اور اوپر ہماری مستدل روایت کی مثل ایک اور روایت کہ جس میں گائے اوراونٹ سے عقیقہ کرنے کا حکم ہے، دونوں کو ذکر کرنے کے بعددونوں کا محمل بیان کرتے ہوئے فرماتےہیں:’’ليس فيه استحباب البدن بل الغنم. وإنما فيه إنها تجزي، ولسنا ننكر ذلك. والمعنى في أن الإبل لا تستحب من هذا النسك على الغنم‘‘ترجمہ:اس میں بکری کی بجائے اونٹ کے مستحب ہونے کی دلیل نہیں ،صرف اتنی بات ہے کہ اونٹ عقیقہ میں کفایت کرجائے گا اور ہم اس کے منکر نہیں ہیں اور معنی یہ ہے کہ اس (یعنی عقیقہ والی )قربانی میں اونٹ بکر ی کی نسبت مستحب نہیں ہے ۔

 (المنهاج في شعب الإيمان،جلد3،صفحہ285،دار الفكر)

بلکہ اس کی صراحت تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اپنے فرمان  میں بھی موجود ہے کہ اسی واقعہ سے متعلق ایک دوسری روایت جو سنن کبری کی روایت سے زیادہ تفصیلی ہے اور اس کی سند بھی صحیح ہے،اس میں اونٹ سے عقیقہ کے سوال کے جواب میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے معاذاللہ کہنا نہیں بلکہ صرف یہ کہنا منقول ہے کہ’’ نہیں بلکہ افضل ،سنت لڑکے کی طرف سے دوبکریاں ہیں ۔‘‘ چنانچہ امام حاکم اپنی مستدرک میں سند صحیح کے ساتھ روایت  کرتے ہیں (علامہ ذہبی نے بھی اس کی صحت کو برقرار رکھا ہے ۔):’’عن أم كرز، وأبي كرز، قالا: نذرت امرأة من آل عبد الرحمن بن أبي بكر إن ولدت امرأة عبد الرحمن نحرنا جزورا، فقالت عائشة رضي الله عنها: «لا بل السنة أفضل عن الغلام شاتان مكافئتان، وعن الجارية شاة »۔۔۔ هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه ۔التعليق – من تلخيص الذهبي۔ صحيح‘‘ ترجمہ:ام کرز اور ابوکرز دونوں سے روایت ہے ،دونوں کہتے ہیں کہ آل عبد الرحمن بن ابوبکر میں سے ایک عورت نے یہ نذر مانی  کہ اگر عبد الرحمن کے ہاں بچہ پیدا ہوا تو ہم ایک اونٹ نحر کریں گے ۔تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ نہیں بلکہ سنت ،افضل لڑکے کی طرف سے ہم مثل دوبکریاں ہیں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ہے ۔ (مستدرک للحاکم ،جلد4،صفحہ266،دارالکتب العلمیہ ،بیروت)

       و اللہ ورسولہ اعلم بالصواب

               کــــــــــــــــتبہ

                            ابو الحسین محمد سعید قادری   

                    18 شعبان المعظم 1446 ھ

                    بمطابق 17فروری 2025 ء